ایک اللہ والے کا عجیب واقعہ

 

ایک اللہ والے کا عجیب واقعہ

ابراہیم بن شبیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ہم جمعہ کے دن بعد نماز کے مجلس کیا کرتے تھے۔ ایک شخص صرف ایک کپڑے میں لپٹا ہوا ہماری مجلس میں آ بیٹھا اور ایک سوال کیا۔ ہم لوگ مجلس کے برخاست ہونے تک مسائل فقہیہ میں گفتگو کرتے رہے۔ پھر وہ شخص دوسرے جمعہ کو آیا ہم نے اس کا جواب دیا اور اس کا مقام اور اس کی حالت دریافت کی اس نے اپنا پتا بتایا، پھر ہم نے اس کی کنیت پوچھی اس نے کہا ابو عبداللہ ہم اس کی ہمنشینی سے بہت خوش ہوئے۔ ایک مدت تک وہ ہمارے پاس اسی طرح آتا جاتا رہا۔ پھر اس کا آنا موقوف ہوگیا ایک بار ہم اس کی ملاقات کے ارادے سے اس بستی میں گئے اور اس کے بارے میں دریافت کیا۔ لوگوں نے کہا وہ ابو عبداللہ صیاد ہیں۔ اس وقت شکار کو گئے ہیں ابھی آتے ہوں گے۔ ہم انتظار میں بیٹھے تھے کہ وہ سامنے سے آئے اور حال یہ تھا کہ ایک ٹکڑے کپڑے کی لنگی اور ایک ٹکڑے کی چادر بنائے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں کئی پرندے زندہ اور کئی ذبح کئے ہوئے تھے، ہمیں دیکھ کر مسکرائے۔ ہم نے کہا آپ ہماری مجلس کی رونق افزائی کیا کرتے تھے۔ اب کیا ہوگیا جو بالکل ترک کردیا۔ کہا کیا سچ کہدوں میرا ایک ہمسایہ تھا اس سے کپڑے لے کر اور پہن کر تمہارے یہاں آتا تھا۔ اب وہ شخص سفر کو گیا ہے۔ پھر کہا تم میرے گھر چل کر رزق تناول کرو گے۔ ہم اس کے مکان پر پہنچ کر بیٹھے اس نے اپنی بیوی کو ذبح کئے ہوئے پرندے پکانے کے لیے سپرد کئے اور زندہ پرندے لے کر بازار گئے اور انہیں پیچ کر روٹیاں لے کر آئے۔ اتنی دیر میں بیوی نے سالن تیار کر رکھا تھا ہم کھانا کھا کر چلے تو آپس میں گفتگو ہونے لگی کہ تم نے اس شخص کی ناداری اور فقر کی حالت اور نیک بختی اور صلاح کی کیفیت دیکھی اور تم میں قدرت بھی ہے کہ اس کی اتنی مدد کرو کہ وہ اپنی حالت سنبھال سکے۔ تمہیں ایسا کرنا چاہئے کہ کچھ چندہ جمع کرکے ان کی امداد کرو جس سے وہ اپنے حاجت پوری کریں، چنانچہ ہم نے آپس میں تعین کرکے پانچ ہزار درہم جمع کئے اور ان کو دینے کے لیے پھر اس گاؤں کو لوٹ چلے۔ جب ہم مدیر پر پہنچے تو امیر بصرہ محمد بن سلیمان جھروکے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ غلام سے کہا کہ ابراہیم بن شبیب کو میرے پاس بلانا جب میں ان کے پاس گیا تو انہوں نے دریافت کیا کہ کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جارہے ہو؟ میں نے سارا قصہ کہہ سنایا۔ امیر نے کہا مجھ پر تم سب سے زیادہ حق ہے اور اسی وقت دس ہزار کا توڑا منگا کر اور ایک فراش کے کندھے پر رکھوا کر میرے ہمراہ کردیا۔ میں اور خوش ہوا اور جلدی سے اس گاؤں کی طرف روانہ ہوا اور اس کے دروازے پر پہنچ کر سلام کیا۔ وہ جواب دیتے ہوئے باہر نکلے، جب میرے ہمراہ فراش کو اور اشرفیوں کے توڑوں کو دیکھا تو اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا اور کہنے لگا اے شضص کیا تو مجھے فتنہ  میں ڈالنا چاہتا ہے؟ میں نے کہا اے ابو عبداللہ بیٹھ جاؤ۔ واقعہ یہ ہے چنانچہ میں نے سارا قصہ کہہ سنایا۔ میں نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ وہ ایک ظالم امیر ہے تم خدا کے واسطے اپنے نفس کو بچاؤ اور یہ لے لو، یہ سن کر ان کا غصہ اور تیز ہوا۔ اسی وقت گھر میں جاکر دروازہ بند کردیا۔ میں نا امید ہوکر امیر کے پاس لوٹ آیا اور بغیر سچ کہنے کے میرے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا۔ ناچار واقعہ بیان کیا سنتے ہی کہنے لگا یہ شخص خارجی معلوم ہوتا ہے اور غلام سے کہا تلوار لے آؤ۔ جب وہ لے آیا تو اس کو میرے ساتھ کردیا اور کہا کہ اس کا سر کاٹ کر لاؤ۔ میں نے کہا خدا امیر کو سلامت رکھے اس شخص کے معاملہ میں خدا سے ڈرو۔ ہم نے اس کو دیکھا ہے وہ خارجی نہیں ہے۔ میں انہیں کو تمہارے پاس بلاتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں میرا مقصود ان کو اس سے بچانا تھا۔ اس پر امیر کو اطمینان ہوا اور میں روانہ ہوکر ان کے دروزے پر پہنچا اور سلام کیا تو ان کی بیوی کو روتا ہوا پایا کہنے لگی کچھ خبر بھی ہے تمہارے ابو عبداللہ کا کیا قصہ ہوا۔ میں نے کہا ان کا کیا حال ہے کہا انہون نے گھر میں آکر جو کچھ ان کے پاس تھا رکھ دیا اور وضو کرکے نماز پڑھی اور میں نے انہیں یہ دعا کرتے سنا اے اللہ مجھے اپنے پاس بلالے اور فتنہ میں نہ ڈال یہ کہتے ہوئے لمبے لیٹ گئے میں ان کے پاس پہچی تو ان کا انتقال ہوچکا تھا اور یہ ان کی لاش موجود ہے۔ میں نے کہا اے بیوی یہ ہمارہ بہت ہی بڑا قصہ ہے پس اب اس ذکر ہی نہ کرو یہ کہہ کر ویسے ہی لوٹ کر میں امیر کے پاس آیا اور سارا حال میں نے اس سے بیان کیا۔ امیر نے کہا میں اس شخص کی نماز پڑھاؤں گا۔ یہ خبر شہر میں مشتہر ہوئی۔ چنانچہ تمام اہل شہر مع امراء و رؤساء کے جنازہ میں شریک ہوئے۔

(رضی اللہ عنہ ونفعنا بہ)

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
https://vast.yomeno.xyz/vast?spot_id=53556