موجد شطرنج کو بادشاہ وقت نے اپنے دربار میں طلب کرکے اظہار
خوشنودی کے بعد فرمایا تمہارے اس دلچسپ کھیل کے لیے میں منہ مانگا انعام دینے کے
لیے تیار ہوں ، موجد شطرنج نے از راہ کسر نفسی عرض کیا حضور کی قدر دانی و عزت
افزائی اور خوشنودی ہی میرے لیے کافی انعام ہے اس سے زیادہ مجھے کسی انعام کی
ضرورت نہیں بادشاہ کے اصرار پر آخر موجد نے کہا شطرنج کے چونسٹھ خانے ہیں اس کے
پہلے خانے میں ایک چاول دوسرے خانے میں گزشتہ خانے سے دگنے چاول اور تیسرے خانے
میں دوسرے سے دگنے،غرضیکہ ہر آئندہ خانے میں گزشتہ خانے سے دگنے چاول اسی طرح علی
ہذا الحساب چونسٹھ خانے چاولون سے پر کردئے جائین، شطرنج کے تمام خانوں کے چاول
میرا انعام ہونگے۔
بادشاہ نے اس بظاہر حقیر سے مطالبے کو اپنی توہین و تذلیل
خیال کرکے رنج و غصے کا اظہار فرمایا کہ اس قدر قلیل مطالبہ شایان شان شاہانہ نہیں
تم کسی بڑے سے بڑے انعام کا مطالبہ کرو، موجد نے عرض کیا کہ جس مطالبہ انعام کو آپ
حقیر و قلیل خیال فرماتے ہین اس کو تمام روئے زمین کے خزانے بھی ادا نہیں کر سکتے
بادشاہ نے کہا کہ ان چونسٹھ خانون کے چاولوں کی مجموعی مقدار دو چار سیر چاولوں سے
زیادہ نہ ہوگی یا زیادہ سے زیادہ مبالغے کے ساتھ دس بیس سیر قیاس کی جاسکتی ہے جس
کو ایک غریب ترین آدمی بھی با آسانی دے سکتا ہے روئے زمین کے تمام خزانون کے ساتھ
اس کی کیا نسبت ہے؟
موجد نے عرض کیا کہ حضور زرا سا حساب تو پھیلا کر دیکھیں
چنانچہ محاسبان شاہی نے جب حساب لگایا تو چاولوں کا مجموعی وزن 75 کھرب من کے قریب
نکلا جو روپے دو سیر کے حساب سے پندرہ نیلم روپے کے ہوئے جس کو واقعی تمام روئے
زمین کے خزانے بھی نقد یا جنس کی صورت میں پورا نہیں کرسکتے۔
بادشاہ نے اس محیر العقوع حساب کا نتیجہ سننے کے بعد فرمایا
کہ تمہارا حسن طلب تمہاری حسن ایجاد سے
بھی زیادہ انعام کا مستحق ہے جو کسی بڑے سے بڑے دانا کے بھی وہم قیاس میں بھی نہیں آسکتا۔
چنانچہ بادشاہ نے اپنی شان شاہانہ کے مطابق موجد کو زر کثیر انعام مرحمت فرمایا۔
(بحوالہ مخزن اخلاق)