چالیس سال میں ہماری رحمت ختم ہوگئی؟
حضرت شیخ
عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ الله تعالی کی رحمت کے موضوع پر چالیس سال تک
بیان کرتے رہے، جب چالیس سال تک مسلسل الله تعالی کی رحمت ہی سناتے رہے تو ان کو
خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اللہ تعالی کی رحمت کو سن سن کر جری ہو جا ئیں
اور نڈر اور بے خوف ہو جائیں کہ جب اللہ تعالی کی رحمت اتنی بڑی اور اس قدر زیادہ
ہے تو ہمیں کیا ضرورت ہے نماز پڑھنے کی اور روزہ رکھنے کی اور دیگر عبادات کی،
کھاؤ پیو اور موج کرو، اللہ تعالی تو بڑے غفور ورحیم ہیں، معاف کردیں گے۔
تو عبد القادر
جیلانیؒ کو خیال آیا کہ اللہ تعالی کی ناراضی، ان کے غضب اور ان کی خشیت و خوف کا
بھی بیان ہونا چاہئے تا کہ لوگ اللہ تعالی سے ڈریں اور ڈر کر گناه و نافرمانی سے
بچیں، نمازوں کی پابندی کریں۔
لہذا ایک دن شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے بجائے اللہ تعالی کی رحمت بیان کرنے کے اللہ تعالی کے خوف اور شیت الہی پر بیان فرمایا، اس بیان کا اتنا اثر ہوا کہ ان میں سے کئی آدمیوں کا اللہ تعالی کے خوف کی وجہ سے انتقال ہو گیا اور جب حضرت کی مجلس برخاست ہوئی تو مجمع میں سے کی جنازے اٹھے اور حضرت نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کو دفنایا گیا۔
جب وہ دن گزرا اور رات آئی اور حضرت عبد القادر جیلانیؒ سوئے تو
خواب میں حضرت کو اللہ جل شانہ کی طرف سے عتاب ہوا اور الله پاک نے فرمایا کہ اے
عبد القادر ! کیا ہماری رحمت چالیس سال میں ختم ہوگئی، ہمارے بندوں کو اتنا
کیوں ڈراتے ہو، بس ہماری رحمت ہی بیان کرتے رہو۔
(اصلاحی بیانات ص۲۱۹ ۱۹۸)