حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے اللہ کے یہاں توبہ کی قبولیت سے متعلق صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین
کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک قاتل کا نہایت خوبصورت اور ایمان افروز واقعہ بیان
فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص چوری ڈکیتی اور قتل میں بہت مشہور تھا اور
نہایت معمولی بات پر کسی کو قتل کر دیتا تھا، ہوتے ہوتے اس کے ہاتھ سے ۹۹ افراد کا قتل ہو
چکا ۔
اس کے بعد اس کے دل میں
احساس پیدا ہوا کہ مجھے بھی تو اللہ کے یہاں جانا ہے۔ چنانچہ فکر بڑھتا رہا اور
لوگوں سے معلومات کرتے ہوئے سرگرداں پھرنے لگا کہ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے یا
نہیں ؟
کسی عالم شخص سے ملاقات کی
فکر ہوئی کہ معلوم کیا جائے کہ ایسے شخص کی توبہ قبول ہوسکتی ہے یا نہیں؟
لوگوں نے ایک عابد شخص کے
پاس جانے کا مشورہ دیا۔ اس شخص نے اس کے پاس جاکر مسٰلہ معلوم کیا کہ کیا میری
توبہ قبول ہوسکتی ہے، اور کیا میری مغفرت ہوسکتی ہے جبکہ میں نے ننانوے انسانوں کی
جان مار دی ہے۔ تو اس عابد کو مسٰلہ معلوم نہیں تھا تو اس نے اپنی عقل سے قیاس
آرائی کی کہ جو آدمی نانوے انسانوں کی جان مارسکتا ہے اس کی مغفرت کہاں سے ہوگی ۔
چنانچہ اس نے کہہ دیا کہ تیری
توبہ قبول نہیں ہوگی، تو وہ شخص غصے اور جلال میں آکر اس کو بھی قتل کر کے سو(۱۰۰) پورے کر دیئے۔
کہ جب میری توبہ قبول نہیں ہوتی ہے تولاو تجھے
بھی ختم کرکے سو(۱۰۰) پورے کر دیا ہوں۔ چنانچہ اس نے سو پورے کر دیئے۔
مگر اس کے دل میں تردد باقی رہا کہ میری مغفرت
کی کوئی صورت ضرور ہوگی۔ اس لئے اس نے لوگوں سے معلومات کا سلسلہ جاری کردیا کہ
روئے زمین میں سب سے بڑا عالم کون ہے اس سے جا کر کے معلوم کروں گا ، وہی مسلہ بتا
سکتا ہے۔ آخر لوگوں نے اس کو بتلایا کہ فلاں جگہ ایک عالم رہتا ہے اس کے پاس جا کے
معلوم کرو۔ چنانچہ اس نے اس عالم صاحب کے پاس جا کر اپنی زندگی کی کارگزاری سنائی
اورسوآ دمیوں کو کس طرح سے قتل کیا ہے سارا کارنامہ سنا کر معلوم کیا کہ اب بتلاٰیں
کہ میری توبہ قبول ہوسکتی ہے یا نہیں؟
کیا اللہ کے یہاں مجھ جیسے گناہ گار کے لئے بھی مغفرت کا کوئی خانہ ہے تو
اس عالم صاحب کو چونکہ علم تھا تو اس نے بتلایا کہ تیرے گناہ معاف کرنے میں اللہ
کے یہاں کیا رکاوٹ ہے۔
اس کی رحمت کا سمندر گناہ گاروں کے گناہوں سے بہت بڑا اور بہت وسیع ہے
چنانچہ اس عالم صاحب نے مشورہ دیا کہ تم فلاں جگہ سفر کر کے جاؤ وہاں کچھ اللہ کے
بندے رہتے ہیں ان کا مشغل صرف اللہ کی عبادت ہے، ان کے ساتھ مل کر اللہ کی عبادت کرو، اور نادم ہوکر اپنے
گناہوں کی معافی مانگو۔ انشاء اللہ تمہاری مغفرت ہوجائے گی ۔ جب اس شخص نے آدھاراستہ طے کرلیا تو ملک الموت آ گئے اور اس کی موت
ہوگئی۔ اب اس کی روح لیجانے کا مسئلہ کھڑا ہوا۔ آسمانوں سے رحمت کے فرشتے بھی آئے
اور عذاب کے فرشتے بھی ۔ رحمت
کے فرشتے کہنے لگے کہ اس کی روح لیجانے کا حق ہم کو ہے۔ اس لئے کہ یہ سچے دل سے
تائب ہوکر عبادت کے لئے جارہا ہے اور عذاب کے فرشتے کہنے لگے کہ اس کی روح لے جانے
کا حق ہم کو ہے اس لئے کہ اس شخص نے کبھی کوئی نیک کام نہیں کیا ہے۔ پوری زندگی
معصیت میں گنوادی ہے اسی دوران آسانوں سے
آدمی کی شکل میں ایک فرشته آیا ۔ بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آنے والا فرشتے
حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تھے۔
چنانچہ اس فرشتہ نے تشریف لا کر ان دونوں طرح کے فرشتوں کے درمیان یہ فیصلہ
کیا کہ دونوں طرف کی مسافت ناپ کر کے دیکھ لو کہ جہاں سے آرہا ہے وہاں کی مسافت قریب ہے یا
جہاں جارہا ہے وہاں کی مسافت ؟ لہذا جہاں
کی مسافت قریب ہو اس شخص کو وہاں والوں میں شمار کر دیا جائے۔ چنانچہ دونوں طرف کی
زمین ناپ کر دیکھی گئی تو جہاں جارہا تھا وہاں کی مسافت جہاں سے آ رہا
تھا اس کے مقابل میں صرف ایک بالشت قریب ہے چنانچہ فیصلہ ہوا کہ مقام معصیت سے
مقام عبادت صرف ایک بالشت قریب ہے، اس لئے رحمت کے فرشتوں کو اس کی روح کو لیجانا ہوگا ۔ چنانچہ اللہ کی طرف سے اس کی
مغفرت کا اعلان ہو گیا۔
حدیث قدسی میں آتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق ہوتا
ہوں اور وہ مجھے جہاں بھی یاد کرے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ، بخدا اللہ تعالی اپنے
بندے کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جتنی خوشی تم میں سے کسی ایسے شخص کو ہوتی
ہے جس کا جانور بیابان میں گم ہو کر پھر اسے مل جائے ، اور جو ایک بالشت میری طرف
آتا ہے میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہو جاتا ہوں اور جوشخص ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے میں اس کے ایک باع (پھیلائے
ہوئے دونوں ہاتھوں کے درمیان کی مسافت ) قریب ہو جاتا ہوں اور جب وہ میری طرف چل
آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔
(کتاب التوابین بحوالہ بخاری شریف)