اولیاء اللہ کا شہر

اولیاء اللہ کا شہر


ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں جناب رسول اللہ ﷺ کے روضہ مطہرہ پر نو اولیاء اللہ کو دیکھا ۔ میں بھی ان کے پیچھے ہولیا ان میں سے ایک نے میری طرف ملتفت ہوکر فرمایا ، کہان جاتے ہو؟ میں نے کہا تمہارے ساتھ کیونکہ مجھے تم سے محبت ہے اور مین نے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "المرء مع احب" یعنی آدمی اسی کے ساتھ ہے جس سے اس کو محبت ہے ، پھر ان میں سے ایک نے کہا جہاں ہم جاتے ہیں وہاں تم نہیں جا سکتے کیونکہ وہان وہ شخص جا سکتا ہے جس کی عمر چالیس سال کی ہو پھر ایک اور نے کہا آنے دو کیا عجب ہے کہ اللہ اسے بھی وہاں جانا نصیب کردے ۔

القصہ میں چلا اور زمین ہمارے نیچے سے خودبخود دقطعہ ہو جاتی تھی چلتے چلتے ایک شہر میں پہنچے وہ چاندی سونے سے بنایا گیا تھا اور وہاں کے درخت خوب گنجان تھے اور نہریں جاری تھی اور عمدہ عمدہ میوے بکثرت تھے غرض ہم اس شہر کے اندر گئے اور وہاںؐ سے مختلف انواع کے میوے کھائے ، اور تین سیب میں نے اپنے پاس رکھ لیے اور انہون نے بالکل منع نہیں کیا جب وہاں سے واپس آنے لگے تو میں نے پوچھا یہ کونسا شہر یے ؟ فرمایا اولیاء اللہ کا شہر ہے جب ان کا سیر کرنے کو جی چاہتا ہے تو جہاں کہیں ہوں ان کئ سامنے کل شہر ظاہر ہوجاتا ہے لیکن چالیس سال کی عمر سے کم کا سوائے تیرے یہاں آج تک کوئی نہیں آیا ۔ پھر ہم جب مکہ آئے تو میں نے ایک دامغانی کو ان سیبون میں سے ایک سیب دیا اس نے پھینک دیا اس پر میرے ہمراہیوں نے مجھے ملامت کی اور کہا کہ جب تو گرسنہ ہو تو اس باقی سیب سے کھالینا وہ بدستور رہے گا فنا نہ ہوگا ۔

القصہ میں اپنے گھر آیا اور میرے پاس ایک سیب باقی تھا میری بہن مجھ کو آکر لپٹ گئی اور کہنے لگی بھائی جو تم ہمارے واسطے سفر سے ایک عجیب چیز لائے ہو وہ کہاں ہے ؟ میں نے کہا کیا عجیب چیز لایا تھا مجھے دنیا کی کیا چیز میسر ہوئی ہے جو تمہارے لیے لاتا ؟ اس نے کہا وہ سیب کہاں ہے ؟ میں نے اسے چھپا لیا اور کہا کونسا سیب ؟ اس نے کہا ہم سے کیوں چھپاتے ہو تمہیں تو اس شہر کی سیر دھکے کھا کر نصیبب ہوئی ہے اور مجھے تو بیس برس کی عمر میں اس شہر لے گئے تھے اور واللہ بغیر مجھے میری خواہش کے مجھے بلایا گیا تھا ۔ مین نے کہا بہن یہ کیا کہتی ہو مجھ سے تو بزرگ نے فرمایا تھا کہ چالیس سال سے کم عمر والا اس میں کوئی آج تک سوائے تیرے نہیں آیا ، کہنے لگی ہاں یہ قاعدہ مریدین اور عشاق کے لیے ہے اور جو مراد اور محبوب ہیں وہ اس میں جب چاہیں جا سکتے ہیں اور اس سے کچھ ناراضی نہیں ہوتے۔

اور جب تم چاہو میں اس شہر کو دکھا سکتی ہون میں نے کہا اچھا ابھی دکھاؤ اس نے کہا اچھا دکھاتی ہون یہ کہہ کر آواز دی کہ اے شہر حاضر ہو ، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس کے کہتے ہی بعینہ وہی شہر آنکھون سے دیکھ لیا اور دیکھا کہ وہ شہر میری بہن کی طرف جھک رہا ہے ۔ میری بہن نے اس کی طرف ہاتھ بڑھا کر مجھ سے پوچھا کہ اب بتاؤ تمہارا سیب کہان ہے ؟ اس کے بعد وہ سیب جو میرے اوپر تھا مجھ پر گرا ۔ میں یہ عجیب معاملہ دیکھ کر ہنسا یہ واقعہ دیکھ کر میں نے اپنے آپ کو بہت حقیر سمجھا اور میں پہلے نہ جانتا تھا کہ میری بہن بھی ایسے لوگوں میں ہے۔

(بحوالہ نزہۃ البساتین)

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
https://vast.yomeno.xyz/vast?spot_id=53556