بیان کیا جاتا ھے کسی شخص نے ایک غلام خریدا تھا اس غلام نے
اپنے آقا سے تین شرطیں کیں، پہلی یہ کہ جب نماز کا وقت آئے تو آپ مجھے نہ روکیں گے
دوسری یہ کہ آپ مجھ سے صرف دن میں خدمت لے سکیں گے مگر رات کو مجھ پر یہ پابندی
نہیں ہوگی، تیسری یہ کہ میرے رہنے کے لیے کوئی ایسا کمرہ عنایت فرمائیں گے جو میرا
پسندیدہ ہو اور دوسرے شخص کو اس میں آنے کی اجازت نہ ہوگی ۔
چنانچہ آقا نے غلام کی تینوں شرتیں قبول کرلیں اور غلام کو
حکم دیا کہ اپنے رہنے کے لیے محل سرائے میں حسب دل خواہ کمرہ پسند کرلے جس میں ہر
کمرہ ایک سے ایک بہتر ساز و سامان کے ساتھ آرائستہ تھا، پس غلام نے سارے کمروں کو
دیکھ بھال کر اپنے لیے ایک ویران کمرہ پسند کیا جو بغیر چھت کے تھا اس پر آقا نے
دریافت کیا کہ آخر تم نے یہ ویران کمرہ کیوں پسند کیا؟کمرے تو اور بھی بہت ہیں،
اپنے آقا سے یہ بات سن کر غلام نے جواب دیا کہ اے میرے آقا! شاید اپکو معلوم نہیں
کہ ویران جگہ اللہ کے ذکر سے آباد ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد اس غلام نے اسی ویران کمرے میں رات کو رہنا شروع
کردیا اور یہ بات پہلے ہی طے ہوچکی تھی کہ رات کو غلام آزاد رہے گا، جب غلام کو
اپے پسندیدہ کمرے میں رہتے ہوئے کچھ عرصہ گزر گیا تو اس کے آقا نے ایک دن رات کو
بزم احباب منعقد کی اور نصف شب کے بعد جب دوست و احباب رخصت ہوگئے تو مالک مکان
چہل قدمی کرتا ہوا غلام کے کمرے کی جانب جا نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نورانی
قندیل نے اوپر سے آکر کمرے کی خالی چھت کو گھیر رکھا ہے اور غلام سجدے میں اپنے رب
سے دعا اور مناجات میں مصروف ہے کہ میرے پروردگار! دن کو تونے میرے آقا کی خدمت
میرے ذمہ واجب کردی اگر یہ خدمت میرے ذمہ نہ ہوتی تو میں رات دن تیری عبادت میں
مصروف رہتا ، لہذا تو میرا عذر قبول فرمالے
اس کا مالک تعجب کے ساتھ صبح صادق تک اس عجیب منظر کو دیکھتا رہا، چنانچہ صبح ہوتے ہی وہ نورانی قندیل اسمان پر چلی گئی اور چھت بند ہوگئی۔ مالک نے اپنی بیوی سے اس کا تذکرہ کیا اور دوسرے روز وہ مالک اور اس کی بیوی دونوں اس منظر کو دیکھنے گئے تو اس شب میں بعینہ وہی منظر دیکھا جو پہلی شب میں مالک دیکھ چکا تھا ۔ صبح کو ان دونوں نے غلام کو بلا کر کہا تو اللہ کے واسطے آزاد ہے تا کہ اپنی خواہش کے مطابق رات و دن اللہ کی عبادت میں مشغول رہ سکے جس سے تو معذرت کرتا رہتا ہے اسی کے ساتھ ۔ پھر اس مالک اور اس کی بیوی نے غلام سے ان کی ان کرامتوں کا ذکر کیا جو رات کو وہ دونوں دیکھ چکے تھے ، پس اب کیا تھا غلام کو معلوم ہوا کہ ان پر اس کا پردہ فاش ہوگیا ہے تو اس نے اسی وقت دربار الہی میں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اے میرے پروردگار! میں نے تجھ سے دعا کی تھی کہ میرا راز کسی پر نہ کھولیو مگر اب جب کہ میرا بھید دوسروں پر ظاہر ہوگیا جس کو میں مخفی رکھنا چاھتا تھا تو مجھ کو اپنے پاس بلالے ، چنانچہ اسی حالت میں اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی اور وہ واصل برحق ہوگیا ، اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمائے۔