کسی صابر و شاکر اور عیال دار کی بیوی بڑی بد
زبان اور ناشکری تھی جس کی وجہ سے وہ صاحب ایمان سخت پریشان رہتا تھا چنانچہ جب
ایک مرتبہ دو تین روز تک کچھ کھانے کو میسر نہ آیا تو اس عورت نے اپنے شوہر کو بہت
کچھ سخت کہا کہ بال بچے بھوک سے مر جاتے ہیں اور تو نکھٹو گھر میں بیٹھا ہے کچھ تو
شرم کر اور کما کر لا تاکہ بچوں کی مصیبت دور ہو، یہ سن کر شوہر کہنے لگا کہ خدا
کی بندی رات کے وقت شور و غل نہ مچا میں صبح کو کچھ مزدوری کر لاوں گا جو کچھ اجرت
ملے گی تمہارے سامنے لاکر رکھوں گا ۔ چنانچہ جب وہ اللہ کا بندہ صبح کو مزدوری
کرنے گیا تو کسی نے اس کی بات نہ پوچھی باقی سب مزدور اپنے اپنے کام پر لگ گئے ۔
جب اس بندہ خدا نے یہ حال دیکھا تو جنگل
میں جاکر عشاء تک عبادت الہی میں مشغول رہا اور رات کو چپکے سے گھر میں جا پڑا کہ خالی
ہاتھ دیکھ کر خدا جانے عورت کیا طوفان برپا کرے گی صبح اٹھ کر پھر کہیں سے مزدوری
کر لاوں گا ۔ رات کو جب عورت کی آنکھ کھلی تو کہنے لگی میاں اب تک کہاں تھے اور
کیا کما کر لائے؟ اس نے کہا کہ میں نے جس کی مزدوری کی ہے وہ بڑا رحیم و کریم ہے ،
اس نے کل کو مزدوری دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ اس پر عورت نے جھلا کر کہا ہمارے بال
بچے بھوکے مر رہے ہیں اور تم وعدہ کرتے پھرتے ہو؟ پھر صبح کو وہ شخص مزدوری کے لیے
گیا مگر خدا کی شان آج بھی اس کو کسی نے نہ پوچھا اور وہ مجبور ہوکر اسی مقام پر
جنگل میں چلا گیا اور عبادت میں مشغول رہا، بڑی رات گئے جب ڈرتے ڈرتے گھر میں گیا
تو وہ عورت کہنے لگی دونوں دن کی مزدوری لائے ہو؟ اس بے چارے نے گھبرا کر کہا کہ
آقا نے کل تینوں دن کی مزدوری دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ یہ سن کر عورت آگ بگولا ہوکر
کہنے لگی اپنا بھلا چاہتے ہو صبح تینوں دن کی مزدوری لے کر آنا ورنہ منہ نہ دکھانا
صبح کو اس عورت نے ایک تھیلی اس مرد کے حوالے کرکے کہا تینوں دن کی مزدوری اس میں
لاکر آنا اور خبردار! خالی ہاتھ گھر میں نہ آنا یہ سن کر اس بندہ خدا کی نظر عالم
اسباب سے اٹھ کر مستبب حقیقی کی طرف جا پڑی اور اسی وقت سیدھا جنگل میں جاکر عبادت
الہی میں مشغول ہوگیا اور بہت رات گئے عورت کے خوف سے اس تھیلی میں ریت بھر لایا کہ
رات اس حیلہ سے گزر جائے گی اور عورت کے ترانے کی آفت سے بچ جاوں گا۔
مگر جس وقت گھر کے دروازے پر پہنچے تو عورت کا
ڈر اس قدر غالب ہوا کہ خدا جانے آج کیا آفت برپا کرے گی؟ اس لیے اس نے تھیلی ڈال
کر واپسی کا ارادہ کیا مگر اچانک گھر میں سے ایسی خوشبو آئی کہ جس نے دل و دماغ کو
معطر کردیا اور وہ عورت خوش ہوکر گھر سے نکل
آئی , اد خدا کے بندے نے اس سے دریافت کیا
کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ کہنے لگی اندر چل کر اس کی حقیقت سنو اور خدا کا شکر ادا کرو
یقینا تم سچ کہتے تھے تمہارا مزدوری دینے والا بھی سچا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ میں
بچوں کے کھانے پینے کی فکر میں بیٹھی تھے کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی میں
نے جاکر دیکھا کہ ایک سبز پوش سوار دروازے پر کھڑا کہہ رہا ہے لے اپنے شوہر کی تین
دن کی مزدوری اب اس کو ایذا نہ دینا اور اس کو کہہ دینا کہ تونے جس قدر مزدوری کی اس
کی اجرت مل گئی زیادہ کرتا تو زیادہ پاتا آئندہ اس کا خیال رکھنا ، پس طباق اس نے
دیا ہے جس میں پچاس درہم ہیں اور دم بدم اس کی خوشبو دل و دماغ کو معطر کر رہی ہے۔
یہ سن کر وہ بندہ خدا گریہ و زاری کے ساتھ خدا کی حمد و ثنا میں کھوگیا، اور عورت اس
کا شکستہ حال دیکھ کر حیران رہ گئی کہ یا خدا خوش حالی میں یہ پریشان حالی کیسی؟
چنانچہ جب ہوش آیا تو اس نے بتایا کہ اے ناشکری عورت! حقیقت یہ ہے کہ تینوں دن میں
نے کسی کی مزدوری نہیں کی بلکہ دن رات میں عبادت الہی میں مشغول رہا رات کو آکر
تیرے خوف سے یہ حیلہ کردیتا تھا کہ آقا نے کل مزدوری دینے کا کہا ہے، مگر میرے
مالک حقیقی نے اپنے غلام کو سچا کر دکھایا اور تیری رات دن کی آفت سے مجھے بچایا
اس پر اس کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے ۔ دیکھ آج میں اس تھیلی میں تیرے ڈر سے
ریت بھر لایا ہوں تو اس کو خالی کردے اور ریت کو پھینک دے ۔ جب اس کی بیوی نے چاہا
کہ تھیلی خالی کردے تو دیکھتی ہے کہ وہ تھیلی تو جواہرات سے پر ہے جس سے تمام گھر
روشن ہو رہا ہے ۔ یہ دیکھ کر اس مرد صالح نے اپنی تمام عمر اللہ کی شکر گزاری میں
گزار دی۔
)بحوالہ حکایات الصالحین)