ایک ولی اللہ کی مقبولیت کا واقعہ

 

ایک ولی اللہ کی مقبولیت کا واقعہ

بصرہ کا ایک سردار ہمیشہ اداس اور غمگین رہتا تھا کسی نے اس سے دریافت کیا کہ آخر اس پریشانی کا سبب کیا ہے؟ اس پر اس سردار نے کہا کہ بات کہنے کی نہیں پر کہی جاتی ہے کہ مجھ سے ایک ولی اللہ کی خدمت میں بے ادبی ہوگئی تھی اس لیے ڈرتا ہوں کہ قیامت کو اس کے مواخذے میں گرفتار نہ ہوجاؤں ۔

واقعہ یہ پیش آیا کہ میں ایک مرتبہ زیارت بیت اللہ کو چلا اور سب دوست و آشنا عزیز و اقارب رخصت کرنے آئے، حسب دستور کچھ دور چل کر میں نے سب کو لوٹا دیا مگر ایک شخص زید جو میرے خواص میں سے تھا واپس نہ ہوا اور اس نے میرا پیچھا نہ چھوڑا مجبور ہوکر میں نے اس کو جھڑک دیا کہ بیت اللہ کا جانا بھی کوئی آسان سمجھا ہے جو پیادہ پا چلنے کو تیار ہوگیا میرے ساتھ نہ آ اور جس راستے سے تیرا جی چاہے چلا جا، کہنے لگا اے آقا! کیا خدا اس پر قادر نہیں کہ تم کو زاد راہ جلد پہنچادے اور مجھ کو بے یار و مددگار اور بلا توشہ چھوڑ دے، یہ کہہ کر اس نے اپنی راہ لی اور میں اپنے راستے سے چلتا بنا راستہ بھر کہیں وہ مجھ کو نظر نہ آیا واللہ اعلم کہاں پوشیدہ ہوگیا ۔

جب خدا کے فضل سے مناسک حج سے فارغ ہوکر میں مدینہ کو نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ زید آگیا اور السلام علیکم کہہ کر میرے ساتھ بیٹھ گیا ، میں نے حیرت سے پوچھا کہ حج کر آیا؟ کہا ہاں پھر میں نے ظرفتا پوچھا کہ حج کی سند بھی ملی؟ تو کہنے لگا کیسی سند؟ وہ کس کام آتی ہے؟ میں نے کہا حج کرنے والے کو بیت اللہ میں غیب سے چٹھی ملتی ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ فلاں بن فلاں حج کو آیا تھا اور اس کا حج قبول ہوگیا پھر اسی سند کے ذریعہ قبر اور حشر کے عذاب سے نجات ہوتی ہے۔

یہ سن کر زید روتا چلاتا بیت اللہ کو واپس چلا گیا، جب میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے فارغ ہوکر لوٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ زید پھر آگیا اور السلام علیکم کے بعد ایک چٹھی میرے سامنے رکھ دی جو ایک نہایت عمدہ کپڑے میں سبز خط میں زید کے عذاب قبر اور حشر کے لیے نجات لکھی تھی، یہ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے ۔

پھر ذرا سکون ہونے پر میں نے معلوم کیا کہ اے زید! بتا تو اس کی حقیقت کیا ہے؟ آخر یہ دولت بے مثال تجھ کو کس طرح میسر آئی؟ تب اس نے کہا کہ سنو بھائی! جب میں بیت اللہ پہنچا تو کعبہ اللہ حاجیوں سے بالکل خالی تھا اس وقت میں نے گڑگڑا کر رونا اور چلانا شروع کیا کہ اے مالک دو جہاں! کیا غریب گنہگاروں کا حج بھی قبول نہیں جو مجھ کو حج کی سند نہ ملی؟ مجھ کو قسم ہے تیری عزت و جلال کی جب تک چٹھی نہ پاوں گا کعبہ سے باہر نہ جاوں گا اور روتے روتے یہیں مر جاوں گا، اچانک غیب سے آواز آئی اے زید! نجات کی چٹھی لے اور اپنی راہ لے پھر یہ چٹھی میرے ہاتھ میں آگئی جس کو لیکر میں چلا آیا، یہ سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اللہ اللہ! اس شخص کا یہ عالی مرتبہ ہے جس سے میں آج تک واقف نہ تھا ، پھر عزت و اکرام کے ساتھ میں اس کو اپنے ہمراہ بصرہ لے آیا اور وہ چٹھی نہایت احترام و تعظیم کے ساتھ معطر کر کے صندوق میں رکھدی، جب کبھی جی چاہتا تو احترام کے ساتھ نکال کر اس کی زیارت کرلیتا اور چومتا اور آنکھوں سے لگاتا تھا اور پھر محفوظ کرلیتا، اتفاقا میں کہیں سفر میں تھا کہ میرے پیچھے زید کا وصال ہوگیا، جب میں واپس آیا تو اس خبر سے میرے رنج و قلق کی انتہا نہ رہی کہ افسوس! میں ایسے ولی کی تجہیز و تکفین میں بھی شریک نہ ہوسکا، پھر اچانک مجھ کو وہ چٹھی یاد آئی جو میرے بکس میں محفوظ تھی اب تو میں اور بھی بے تاب ہوگیا اور اپنے اوپر افسوس کرنے لگا کہ سفر کو جاتے وقت میں نے وہ چٹھی زید کو کیوں نہ دی، پھر اپنا مہر شدہ صندوق منگا کر دیکھا جو اسی طرح بامہر بند تھا ، جب میں نے کھولا تو چٹھی اس میں نہ پائی اب تو میرے غم کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور ایک حشر کا عالم برپا ہوگیا اور زار و قطار رونے لگا اور روتے روتے سوگیا کیا دیکھتا ہوں کہ طرح طرح کی سجی ہوئی جنت میں زید سر پر ایک تاج رکھے ہوئے زرق و برق لباس میں تخت جواہر پر جلوہ افروز ہے اور اس کے چاروں طرف حوروں کے جمگھٹے ہیں ۔ میں نے قریب جاکر سلام کیا تو اس نے کہا کہ آقا اس قدر پریشان کیوں ہو؟ میں نے کہا مجھے یاد نہیں وہ چٹھی جو تونے مجھے دے دی تھی، کہنے لگا وہ تو یہ موجود ہے اور اس کی بدولت یہ دولت مجھ کو حاصل ہوئی اب آپ کچھ تردد نہ کیجئے، میں اپنی من مانی مراد کو پہنچ گیا۔

)بحوالہ حکایات الصالحین )



Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
https://vast.yomeno.xyz/vast?spot_id=53556