ایک
دن خلیفہ ہارون الرشید حج کے لئے مکہ مظمہ
گیا منی میں قیام کی پہلی رات تھی اس
کا وزیر فضل بن ربیع رات گئے تک خیمہ میں
اس کے ساتھ بیٹھا رہا پھر ہارون الرشید سے اجازت لے کر اپنے خیمہ میں چلا گیا اور
خواب راحت کے مزے لینے لگا-
تھوڑی دیر بعد اس نے اچانک سنا
کہ کوئی اس کے خیمہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے اٹھ کر باہر آیا تو ہارون الرشید کو
کھڑے پایا فضل نے زمین ادب چوم کر کہا امیرالمومنین نے اس وقت کیسے تکلیف فرمائی
ہے۔ حضور حکم دیتے ہی غلام خود در دولت پر
حاضر ہو جاتا ۔ ہارون الرشید نے کہا اس وقت میرا دل کسی مرد کامل کی زیارت کا
متمنی ہے -
فضل نے عرض کی کہ یہاں قریب ہی
سفیان بن عینیہؒ مقیم ہیں اگر آپ پسند فرمائیں تو ان کے ہاں چلیں ہارون الرشید نے
کہا ہاں وہیں چلو دونوں سفیان بن عینیہؒ کی قیام گاہ پر پنہچے فضل نے دروازہ پر دستک دی
سفیان نے پوچھا کون ؟ فضل نے کہا امیرالمونین تشریف لائے ہیں سفیانؒ جلدی سے باہر
نکلے اور بولے امیر المومنین مجھے پیغام دیتے میں خود حاضر ہوجاتا۔
ہارون
رشید کچھ دیر ان کے ساتھ گفتگو کرتا رہا ۔ چلنے لگا تو پوچھا کسی چیز کی ضرورت
ہوتو ارشادفرمایئے۔ سفیانؒ نے کہا میرے سر پر قرض ہے۔
ہارون الرشید نے فضل کوعلم دیا
کہ ابو محمد کا قرض فورا ادا کرنے کا انتظام کرو۔ پھر دونوں وہاں سے چل پڑے۔
اثنائے راہ میں ہارون الرشید نے
فضل سے کہا میرے دل کو اطمینان حاصل نہیں ہوا کسی دوسرے مرد خدا کے پاس چلو۔
فضل نے کہا امیرالمونین فلاں
جگہ محدث عبدالرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الصنعانیؒ قیام پذیر ہیں ہارون الرشید
نے کہا چلو انہی کے پاس چلتے ہیں ، فضل نے عبدالرزاق بن ہمامؒ کی رہائش گاہ کا
دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے عبدالرزاقؒ نے آواز دی! کون ہے؟ فضل نے جواب دیا امیر
المومنین آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔ عبد الرزاقؒ عجلت سے باہر نکلے اور بولے
امیر المومنین مجھے طلب فرما لیتے میں خود حاضر ہو جاتا ،ہارون الرشید ان سے بھی
تھوڑی دیرتک گفتگو میں مصروف رہا اور چلنے کا ارادہ کیا چلتے چلتے عبد الرزاقؒ
سے پوچھا آپ پر کوئی قرض تو نہیں؟ عبد الرزاق نے جواب دیا امیر المومنین میں اتنی
رقم کا مقروض ہوں ہارون الرشید نے فضل کوحکم دیا ابوالعباس ان کا قرض ادا کردو-
وہاں
سے چلے تو ہارون الرشید نے فضل سے کہا اے ابوالعباس یہاں بھی میرے دل کی مراد پوری
نہیں ہوئی چلو کسی اور کے پاس چلیں فضل نے عرض کی امیر المومنین اس طرف فضیل بن
عياضؒ مقیم ہیں ہارون الرشید نے کہا اب
انہیں کے پاس چلتے ہیں ، دونوں حضرت فضیل بن عیاضؒ کے خیمہ پر پہنچے اس وقت وہ
نماز پڑھ رہے تے (یا روایت دیگر قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے) جب فارغ ہو گئے تو
فضل نے دروازے پر دستک دی پچھا کون ہے؟ فضل نے جواب دیا، امیرالمومنین تشریف لائے
ہیں فضیلؒ نے اندر سے فرمایا
یہاں امیر المومنین کا کیا کام؟ ان سے کہو تشریف لے جائیں اور میرے مشاغل میں مخل
نہ ہوں۔
فضل
نے کہا سبحان اللہ کیا صاحب (خلیفہ) کی اطاعت آپ پر واجب نہیں ہے؟ فضیلؒ نے جواب
میں فرمایا میری اجازت تو نہیں ہے ہاں حکومت کے زور پر اندر آنا چاہتے ہو تو
تمہاری مرضی۔
یہ
کہہ کر انہوں نے دروازہ کھول دیا اور ساتھ ہی چراغ گل کر دیا تا کہ ہارون الرشید
کا چھرا دکھائی نہ د ے ہارون الرشید اور فضل دونوں خیمے کے اندر داخل ہو گئے اور
گھپ اندھیرے میں فضیل کو ڈھونڈنے لگے اچانک ہارون الرشید کا ہاتھ فضیلؒ کے ہاتھ سے
مس ہوگیا انہوں نے فرمایا کیا نرم ہاتھ ہے کتنا خوش نصیب ہوتا اگر قیامت کے دن
دوزخ کی آگ سے محفوظ رہے۔ ہارون الرشید نے کہا! اللہ آپ پر رحمت کرے ہمیں کوئی نصیحت
فرمائیں-
فضیل
بن عیاضؒ نے کہا، حضرت عباس رسول اکرم ﷺ کے چچا تھے انہوں نے ایک دفعہ حضور سے درخواست کی کہ یا
رسول اللہ ﷺ مجھے کسی علاقہ کی حکومت عطا فرمایئے حضورﷺ نے کہا اے عباس! میں نے تمہیں تمہارے نفس پر
امیر بنایا ، ایسا نفس جواطاعت میں مشغول رہے اس حکومت سے بہتر ہے جس کی ذمہ داریوں
کا کوئی
شمار نہیں حکومت
قیامت کے دن شرمندگی کا باعث ہوگی۔
ہارون
الرشید نے کہا کچھ اور ارشاد فرمایئے۔
فضیل بن عیاضؒ نے کہا، امیر
المومنین عمر بن عبدالعزیزؒ جب مسند خلافت پر بیٹھے تو انہوں نے رجاء بن حیٰوۃ،
سالم بن عبد اللہ، اور محمد بن کعب القرطی کو بلا بھیجا اور ان سے کہا کہ میں
آزمائش میں ڈال دیا گیا ہوں، مجھے کوئی مشورہ دو ۔ اے ہارون الرشید ذرا اپنے
گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو عمر بن عبد العزیز نے تو خلافت کو آزمائش خيال کیا
لیکن تم اور تمہارے ساتھی اسے نعمت سمجھ کر اس پر ٹوٹ پڑے ہیں ، اب سنو کہ عمر بن
عبد العزیزؒ کو سالم بن عبداللہ نے کیا جواب دیا، انہوں نے فرمایا اگر آپ چاہتے
ہیں کہ قیامت کے دن عذاب سے محفوظ رہیں تو مسلمانوں میں جو بڑی عمر کا ہے اس کو
اپنے باپ کی طرح، جو آپ کی عمر کا ہے اس کو اپنے بھائی کی طرح، اور جولڑکا ہے اس کو اپنے فرزند کی طرح سمجھئے، اسی
طرح غیر عورتوں کو اپنی ماؤں کی طرح اور بہنوں کی طرح سمجھئے۔
رجاء
بن حيٰوہ نے کہا اگر آپ قیامت کے دن حق تعالی کے سامنے شرمسار ہونا نہیں چاہتے تو
مسلمانوں کے لیے وہی پسند کریں جو آپ اپنے لیے کرتے ہیں اور جس چیز کو اپنے لیے برا
سمجھتے ہیں اسے مسلمانوں کے لیے بھی برا سمجھئے ، پھر جب چاہے بے خوف و خطر اپنی
جان خالق حقیقی کے سپرد کردیجئے۔
اے ہارون الرشید ،اے خلیفة
المسلمین میں بھی تمہیں اسی دن کا خوف دلاتا ہوں جب بڑے بڑے مضبوط قدم ڈگمگا جائیں گے اللہ تم پر رحم کرے کیا تمہارے
ساتھی عمربن عبدالعزیزؒ کے ساتھیوں کی طرح ہیں جوتم کوان جیسا مشورہ دیتے ہوں-
حضرت فضیلؒ کے ارشاد سن کر
ہارون الرشید پر رقت طاری ہوگئی اور وہ اس قدر رویا کہ غشی طاری ہوگئی جب ہوش آیا
تو کہا، کچھ مزید فرمایئے۔
فضیل بن عیاضؒ نے فرمایا- اے ہارون
الرشید میں تیرے اس حسین وجمیل
چھرےسے ڈرتا ہوں کہ کہیں دوزخ کی آگ میں جھلس نہ جائے یاد رکھئے کہ قیامت کے دن حق
تعالی تجھ سے ایک ایک مسلمان کی نسبت سوال کرے گا کہ تو نے اس سے انصاف کیا یا
نہیں یہاں تک کہ اگر کوئی بڑھیا بھوکی رات کو سوئی ہوگی تو قیامت کے روز وہ بھی
تیرا دامن پکڑے گی اور تجھ سے جھگڑا کرے گی پس اس چہرے کو آگ سے بچا سکتا ہے تو بچا اور زندگی کے
لیل ونهاراسی طرح گزار کہ تیرے دل میں اپنی رعیت کے بارے میں کوئی کھوٹ اور کینہ
نہ ہو کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس
حاکم نے اس حالت میں صبح کی
کہ اس کے دل میں اپنی رعایا کے خلاف کینہ بھرا ہوا ہے وہ جنت کی بو بھی سونگھنے نہ
پائے گا ، ہارون الرشید یہ سن کر زار زار رونے لگا یہاں تک کہ اسے اپنی سدھ بدھ نہ رہی، فضل بن ربیع نے حضرت فضیل بن عیاضؒ سے
کہا ، امیر المومنین سے کچھ
نرمی برتئے آپ نے تو انہیں مار ہی ڈالا ہے۔
فضیل
بن عیاضؒ نے فرمایا اے ربیع کے بیٹے ہارون
الرشید کو تم اور تمہارے ساتھیوں نے ہلاک کیا ہے میں نے انہیں ہلاک نہیں کیا ہے،
ہارون الرشید کو ہوش آیا تو اس نے حضرت فضیلؒ سے پوچھا! آپ پر کوئی قرض ہے؟ فرمایا
خدا کا قرض ہے جس کا وہ مجھ سے محاسبہ کرے گا پس ہلاکت ہے میرے لیے جب مجھ سے باز
پرس ہوگی اور میری کوئی دلیل کام نہ آئے گی۔
ہارون الرشید نے کہا میں لوگوں
کا قرض پوچھتا ہوں۔ فرمایا میرے رب نے مجھے اس کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ حکم دیا ہے کہ میں اس کے وعده کو
سچا جانوں اور اس کی اطاعت کروں حق تعالی کا ارشاد ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں
کو عبادت کے سوا کسی اور غرض کے لئے پیدا نہیں کیا مجھے نہ تو ان سے رزق حاصل کرنے کی خواہش ہے اور نہ
میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں بیشک اللہ ہی رازق اور زبردست قوت والا ہے۔
ہارون الرشید نے کہا ! یہ ایک
ہزار دینار کی تھیلی ہے میری والدہ کی
میراث ہے اور خالص طیب ہے اس کو قبول فرمائے۔
فضیل بن عیاضؒ نے کہا افسوس
میری تمام نصیحتیں رانیگاں گئیں اور تم نے ان کو دل میں جگہ نہ دی یہ مال اس کو دو
جس کو اس کی ضرورت ہے لیکن تم اس کو دیتے ہو جس کو اس کی ضرورت نہیں یہ مجھ پر ظلم
نہیں تو کیا ہے میں تجھے نجات دلانا چاہتا ہوں اور تو مجھے ہلاکت میں ڈالنا چاہتا
ہے فضل بن ربیع کہتا ہے کہ پھر حضرت فضیلؒ خاموش ہوگئے اور ہم دونوں سلام
کرکے ان کی قیام گاہ سے باہر آ گئے راستے میں امیر المومنین نے مجھ سے مخاطب ہوکر
کہا دیکھا مرد خدا ایسے ہوتے ہیں آئندہ جب میں تم سے کہوں کہ کسی مرد خدا کے پاس
لے چلو تو تم اس قسم کے (فضیل بن عیاضؒ جیسے) مرد خدا کے پاس لے جایا
کرو۔
(بحوالاحسن القصص)