حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی اور تخت کا واقعہ

حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی اور تخت کا واقعہ


بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ کے لیے جلوس کا ارادہ فرمایا تو جناتوں کو حکم دیا کہ ان کے لیے ایک نادر الوجود اور عمدہ کرسی تیار کریں جس کی صفت یہ ہو کہ جھوٹا مدعی یا گواہ اس کے دیکھنے سے تھرانے لگے ، چنانچہ تعمیل ارشاد میں ہاتھی دانت کی ایک کرسی تیار کی گئی جس کو جواہرات یاقوت، موتیوں اور زبرجد سے مزین کیا گیا تھا اور جواہرات سے انگور کے درخت بنا کر اس کو گھیر دیا تھا جس میں سونے کے چار کھجور کے ایسے درخت بھی تھے جن کی شاخیں چاندی کی بنائی گئی تھی اس میں سے دو درختوں کی چوٹی پر دو گدھ بنائے گئے تھے اور اس کرسی اور تخت کے دونوں گوشوں پر سونے کے دو شیر تھے جن کے سروں پر سبز زمرد کے ستون نصب کئےگئے تھے، اس طرح جنات نے اس تخت کو ایسے سخت پتھر پر رکھا تھا جس کے نیچے سونے کا ایک شردھا بنا تھا جو اس تخت کو گھماتا تھا ۔

چنانچہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام اس کے نیچے کے درجے پر چڑھتے تو وہ کرسی اور تخت اپنے اس تمام سامان کے ساتھ جو اس سے متعلق تھا چکی کی طرح گردش میں آجاتا تھا اور گدھ اور مور اپنے بازو پھیلاتے تھے، نیص شیر اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر دموں کو زمین پر مارتے تھے اور ہر درجہ میں صعود پر یہی کیفیت پیدا ہوتی رہتی تھی، یہاں تک کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام بالائی منزل پر پہچتےتو دونوں گدھ مشک و عنبر تیزی کے ساتھ تاج ان کے سر پر رکھتے تھے اور تخت پر جلوہ افروز ہونے کے بعد سونے کا کبوتر زبور پیش کرتا جس کو لوگوں کو سنایا کرتے تھے، ان کے دائیں جانب علماء بنی اسرائیل سونے کی کرسیوں پر بیٹھتے تھے اور بائیں جانب معزز جناتچاندی کی کرسیوں پر، اس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام فیصلہ کے لیے جلوس فرماتے تھے، اور جب کسی معاملہ کی شہادت کے لیے گواہ آتے تو وہ کرسی مع اپنے سامان کے گردش میں آجاتی تھی، اور شیروگدھ اور طاوس اپنے مذکورہ کام میں مشغول ہوجاتے تھے یہ دیکھ کر گواہوں پر ایک ایسی ہیبت طاری ہوتی کہ سچ و حق کے سوا کوئی جھوٹی شہادت نہ دے سکتے تھے ۔

پس جب حضرت سلیمان علیہ السلام کا انتقال ہوا تو اس کرسی کو شاہ بخت نصر نے اپنے قبضے میں لے لیا مگر جب اس نے اس پر چڑھنے کا ارادہ کیا تو ایک شیر نے اپنے دائیں ہاتھ سے بادشاہ کی پنڈلی اور قدم پر ایک ایسی چھاپ ماری خس کے باعث وہ اس کرسی پر نہ چڑھ سکا اور اسی ضرب کی کرب و بے چینی میں مبتلا ہوکر مرگیا، اور وہ کرسی شہر انطاکیہ روم و شام کے دارالسلطنت میں باقی رہی یہاں تک کہ اہل انطاکیہ سے کراس بن سدرس نے جنگ کی اور خلیفہ نے بخت نصر کو شکست دی اس کے بعد کرسی بیت المقدس لائی گئی اور کوئی بادشاہ اس کرسی کے چڑھنے پر قادر نہ ہوسکا، پھر اس کو صخرہبیت المقدس کے پیچھے رکھا گیا جس کے بعد آج تک اس کی کوئی خبر یا اثر معلوم نہ ہوسکا، کہ کہاں گئی؟ اور کیا ہوا؟


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
https://vast.yomeno.xyz/vast?spot_id=53556