شیخ عبدالرحمن بن سلام المقری نے کتاب العقائد میں
نقل کیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اللہ نے ان کے لیے دنیا کو
وسیع کردیا اور دنیا اس کے ہاتھ میں ہوگئی تو کہنے لگے اے میرے معبود! اگر مجھے
اجازت دیں کہ میں تیری تمام کو پورے سال کھلاوں ۔
تو اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تو اس
پر قدرت نہیں رکھتا، پھر درخواست کی یاالہی! ایک ہفتہ؟ تو جواب ملا اس پر بھی قدرت
نہیں رکھتا ۔ پھر درخواست کی کہ ایک دن؟ فرمایا اس پر بھی قدرت نہیں رکھتا ۔ بہرحال
اللہ تعالی نے ان کو ایک دن کی اجازت دی۔
تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تمام جنوں اور
انسانوں کو حکم دیا کہ وہ تمام کے تمام ان چیزوں کو جو زمین پر حلال ہیں یعنی گائے،
بیل، بکریاں، دنبے وغیرہ جمع کرو پھر ان کو ذبح کیا گیا اور پکایا گیا اور ہوا کو
حکم دیا کہ وہ کھانے پر برابر چلتی رہے تاکہ خراب نہ ہو، پھر کھانوں کو جنگل میں
پھیلادیا گیا اس کا طول ایک میہنے کی مسافت کے برابر تھا اور اس کا عرض بھی اتنا
ہی تھا۔
پھر اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو
وحی بھیجی کہ اے سلیمان تو مخلوقات میں سے کس سے دعوت شروع کرے گا؟
حضرت سلیمان علیہ السلام نے عرض کیا کہ میں دریا
کے جانوروں سے شروع کروں گا۔
تو اللہ تعالی نے بحر محیط کی ایک مچھلی کو حکم
دیا کہ وہ حضرت سلیمان کی ضیافت میں سے کھائے، چنانچہ اس مچھلی نے سر اٹھایا اور
کہا کہ اے سلیمان! میں نے سنا ہے کہ تونے ضیافت کا دروازہ کھول دیا ہے اور آج میری
ضیافت تو کرے گا؟
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا لے اور کھانا
شروع کر، چنانچہ وہ مچھلی آگے بڑھی اور دستر خوان کے شروع سے کھانے لگی، مچھلی نے
اس قدر کھایا کہ ایک ساعت میں سارا کھانا صاف کردیا پھر اس مچھلی نے آواز لگائی اے
سلیمان! مجھے کھانا کھلاو اور میرا شکم سیر کرو ، حضرت سلیمان علیہ السلام نے
فرمایا کہ تو تو سارا کھا گئی اور اب بھی تیرا پیٹ نہیں بھرا؟ تو مچھلی نے کہا!
کیا اس طرح میزبان کا جواب ہوتا ہے مہمان کے لیے؟ اے سلیمان! آپ خوب جان لیجیئے کہ
میرے لیے ہر روز اس طرح جتنا تونے پکایا دن میں تین مرتبہ متعین ہے اور آج میرے کھانے
کے روکنے کا سبب تو بنا ہے اور تونے میرے کھانے میں کمی کردی۔
اسی وقت حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گرپڑے اور کہنے لگے پاک ہے وہ ذات جو کفالت کرنے والی ہے، مخلوق کی روزیوں کے ساتھ جہاں سے مخلوق جانتی بھی نہیں کہ کہاں سے آتا ہے ۔