حضرت شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیؑ کے زمانے میں ایک سرکش اورفاسق
فاجرشخص مخلوق خدا کے لیے باعث عذاب تھا۔
اس شخص کا تمام وقت لہو ولعب اور لوگوں کو تنگ کرنے میں گزرتا تھا۔ ہوش
سنبھالنے سے لے کر بڑھاپے تک اس نے کوئی بھی نیکی کا کام نہیں کیا تھا۔ اس کے ان
گناہوں اور بد کاریوں کے باعث لوگ اس کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ اگر
وہ کہیں نظر آ بھی جاتا تو اس کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں خوف آتا تھا۔
حضرت عیسیؑ ایک دن جنگل سے بستی کی جانب آئے تو اس زمانے کا ایک عابد و زاہد
اپنے بالا خانے سے اتر کر آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور نہایت عقیدت کے
ساتھ آپ کی دست پوسی کا شرف حاصل کیا۔
وہ فاجرشخص یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے اس عابد و زاہد کی آپ علیہ السلام کے
ساتھ اس کی عقیدت و محبت کو دیکھا تو یہ احساس اس کے دل میں نشتر کی ماند
چبھ گیا کہ ایک میں ہوں جس کا نام لینا کوئی گوارا نہیں کرتا اور ایک یہ اللہ کا
نیک بندہ ہے کہ بڑے بڑے عابد و زاہد اس کی دست پوسی کررہے ہیں۔اس خیال کے آتے ہی
وہ فاجر شخص رونے لگا اور روتے روتے اس پر رقت طاری ہوگئی۔
اس نے الله عز وجل کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی صدق دل سے معافی مانگی۔ جب
اس عابد وزاہد نے اس کو یوں گریہ کرتے دیکھا تو غصہ میں کہا کہ یہ مردور یہاں کہاں
سے آگیا؟ اس کا یہاں کیا کام؟ یہ دوزخ کا ایندھن بنے گا ، یہ تو بد کار ہے اور
ایسا بدکار ہے کہ دوزخ بھی اس سے پناہ مانگتی ہوگی۔
اس عابد وزاہد نے یہ خیال کرتے ہوئے دعا مانگی :
اے اللہ ! میرا انجام اس مردود کے ساتھ نہ کرنا »
جس وقت وہ عابد و زاہد یہ دعا مانگ رہا تھا، اس وقت اللہ عزوجل نے حضرت عیسیؑ کی جانب وحی کی کہ وہ گنہگار اپنے گناہوں پر نادم ہونے کی وجہ سے بخش دیا گیا ہے اور جنت کا حقدار ہوگیا ہے۔ جو ہمارے دروازے پر عاجز بن کر آئے ہم اسے مایوس نہیں کرتے۔ ہم نے دونوں کی دعا قبول کرلی اور اس عابد و زاہد نے دعا مانگی تھی کہ اس کا حشر اس کے ساتھ نہ ہو، اس لیے اس کا مقام جنت کی بجائے دوزخ ہے۔ اس نے غرور و تکبر کی وجہ سے اپنے تمام اعمال برباد کر دیئے-